ہجرت کا چھٹا سال

-: بیعۃ الرضوان

-: صلح حدیبیہ کیونکر ہوئی

-: حضرت ابو جندل کا معاملہ

-: مظلومین مکہ

-: حضرت ابو بصیر کا کارنامہ

صلح حدیبیہ سے فارغ ہوکر جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو سب سے پہلے جو بزرگ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے وہ حضرت ابوبصیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ تھے۔ کفارمکہ نے فوراً ہی دو آدمیوں کو مدینہ بھیجا کہ ہمارا آدمی واپس کردیجئے۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت ابوبصیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے فرمایا کہ ’’تم مکے چلے جاؤ، تم جانتے ہو کہ ہم نے کفارقریش سے معاہدہ کرلیا ہے اور ہمارے دین میں عہدشکنی اور غداری جائز نہیں ہے‘‘ حضرت ابوبصیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیا آپ مجھ کو کافروں کے حوالہ فرمائیں گے تاکہ وہ مجھ کو کفر پر مجبور کریں ؟ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جاؤ!خداوند کریم تمہاری رہائی کا کوئی سبب بنا دے گا۔ آخر مجبور ہوکر حضرت ابوبصیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ دونوں کافروں کی حراست میں مکہ واپس ہوگئے۔ لیکن جب مقام ’’ذوالحلیفہ‘‘ میں پہنچے تو سب کھانے کے لئے بیٹھے اور باتیں کرنے لگے ۔ حضرت ابوبصیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے ایک کافر سے کہا کہ اجی!تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ اس نے خوش ہوکر نیام سے تلوار نکال کر دکھائی اور کہا کہ بہت ہی عمدہ تلوار ہے اور میں نے بارہا لڑائیوں میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ حضرت ابوبصیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے کہا کہ ذرا میرے ہاتھ میں تو دو۔ میں بھی دیکھوں کہ کیسی تلوار ہے؟ اس نے ان کے ہاتھ میں تلوار دے دی۔ انہوں نے تلوار ہاتھ میں لے کر اس زور سے تلوار ماری کہ کافر کی گردن کٹ گئی اور اس کا سر دور جاگرا۔ اس کے ساتھی نے جو یہ منظر دیکھا تو وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگا اور سرپٹ دوڑتا ہوا مدینہ پہنچا اور مسجدنبوی میں گھس گیا۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کو دیکھتے ہی فرمایا کہ یہ شخص خوفزدہ معلوم ہوتا ہے۔اس نے ہانپتے کانپتے ہوئے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ میرے ساتھی کو ابوبصیر نے قتل کردیااورمیں بھی ضرور مارا جاؤں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبصیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ بھی ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے آن پہنچے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )اللہ تَعَالٰی نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی کیونکہ صلح نامہ کی شرط کے بموجب آپ نے تو مجھ کو واپس کردیا۔ اب یہ اللہ تَعَالٰی کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ کو ان کافروں سے نجات دے دی۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خفاہوکر فرمایا کہ

وَیْلُ اُمِّہٖ مِسْعَرُ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَہٗ اَحَدٌ۔

اس کی ماں مرے!یہ تو لڑائی بھڑکا دے گا کاش اس کے ساتھ کوئی آدمی ہوتا جو اس کو روکتا۔

حضرت ابوبصیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اس جملہ سے سمجھ گئے کہ میں پھر کافروں کی طرف لوٹا دیا جاؤں گا، اس لئے وہ وہاں سے چپکے سے کھسک گئے اور ساحل سمندر کے قریب مقام ’’عیص‘‘ میں جاکر ٹھہرے ۔ ادھر مکہ سے حضرت ابوجندل رضی اﷲ تعالٰی عنہ اپنی زنجیر کاٹ کر بھاگے اور وہ بھی وہیں پہنچ گئے۔ پھر مکہ کے دوسرے مظلوم مسلمانوں نے بھی موقع پاکر کفار کی قید سے نکل نکل کر یہاں پناہ لینی شروع کردی۔ یہاں تک کہ اس جنگل میں ستر آدمیوں کی جماعت جمع ہوگئی۔ کفارقریش کے تجارتی قافلوں کا یہی راستہ تھا۔ جو قافلہ بھی آمدورفت میں یہاں سے گزرتا، یہ لوگ اس کو لوٹ لیتے۔ یہاں تک کہ کفارقریش کے ناک میں دم کردیا۔ بالآخر کفارقریش نے خدا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خط لکھا کہ ہم صلح نامہ میں اپنی شرط سے باز آئے۔ آپ لوگوں کو ساحل سمندر سے مدینہ بلا لیجئے اور اب ہماری طرف سے اجازت ہے کہ جو مسلمان بھی مکہ سے بھاگ کر مدینہ جائے آپ اس کو مدینہ میں ٹھہرا لیجئے۔ ہمیں اس پرکوئی اعتراض نہ ہوگا۔1

(بخاری باب الشروط فی الجہاد ج۱ ص۳۸۰ )

یہ بھی روایت ہے کہ قریش نے خود ابوسفیان کو مدینہ بھیجا کہ ہم صلح نامہ حدیبیہ میں اپنی شرط سے دست بردار ہو گئے۔ لہٰذا آپ حضرت ابوبصیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو مدینہ میں بلا لیں تاکہ ہمارے تجارتی قافلے ان لوگوں کے قتل و غارت سے محفوظ ہوجائیں ۔ چنانچہ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت ابوبصیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس خط بھیجا کہ تم اپنے ساتھیوں سمیت مقامِ ’’عیص‘‘ سے مدینہ چلے آؤ۔ مگر افسوس!کہ فرمانِ رسالت ان کے پاس ایسے وقت پہنچاجب وہ نزع کی حالت میں تھے۔ مقدس خط کو انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے کر سر اور آنکھوں پر رکھااور ان کی روح پرواز کرگئی۔ حضرت ابوجندل رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر ان کی تجہیز وتکفین کا انتظام کیا اور دفن کے بعد ان کی قبرشریف کے پاس یادگار کے لئے ایک مسجد بنا دی۔ پھر فرمان رسول کے بموجب یہ سب لوگ وہاں سے آکر مدینہ میں آباد ہوگئے۔2

(مدارج النبوۃ ج ۲ص۲۱۸ )


1صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجھاد۔۔۔الخ، الحدیث : ۲۷۳۱، ۲۷۳۲، ج۲، ص۲۲۷مفصلاً والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب ماجری علیہ امر قوم من۔۔۔الخ، ص۴۳۴، ۴۳۵ 2مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ششم ، ج۲، ص۲۱۸

-: سلاطین کے نام دعوت اسلام

-: نامہ مبارک اور قیصر

-: خسرو پرویز کی بددماغی

-: نجاشی کا کردار

-: شاہ مصر کا برتاؤ

-: بادشاہ یمامہ کا جواب

-: حارث غسانی کا گھمنڈ

-: سریۂ نجد

-: ابو رافع قتل کردیا گیا

-: بادشاہ یمامہ کا جواب