اعلانِ نبوّت سے پہلے

-: جنگِ فجار

-: حلف الفُضول

-: ملک ِشام کا دوسرا سفر

-: نکاح

حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مال و دولت کے ساتھ انتہائی شریف اور عفت مآب خاتون تھیں۔اہل مکہ ان کی پاک دامنی اور پارسائی کی وجہ سے ان کو طاہرہ (پاکباز) کہا کرتے تھے۔ ان کی عمر چالیس سال کی ہو چکی تھی پہلے ان کا نکاح ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا تھا اور ان سے دو لڑکے ’’ہند بن ابو ہالہ‘‘ اور ’’ہالہ بن ابو ہالہ‘‘ پیدا ہو چکے تھے۔ پھر ابو ہالہ کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے دوسرا نکاح ’’عتیق بن عابد مخزومی‘‘ سے کیا۔ ان سے بھی دو اولاد ہوئی ، ایک لڑکا ’’عبداللہ بن عتیق‘‘ اور ایک لڑکی ’’ہند بنت عتیق‘‘ ۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے دوسرے شوہر ’’عتیق‘‘ کا بھی انتقال ہو چکا تھا۔ بڑے بڑے سردار ان قریش ان کے ساتھ عقد نکاح کے خواہش مند تھے لیکن انہوں نے سب پیغاموں کو ٹھکرا دیا۔ مگر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پیغمبرانہ اخلاق و عادات کو دیکھ کر اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے حیرت انگیز حالات کوسن کر یہاں تک ان کا دل آپ کی طرف مائل ہو گیا کہ خود بخود ان کے قلب میں آپ سے نکاح کی رغبت پیدا ہو گئی۔ کہاں تو بڑے بڑے مالداروں اور شہر مکہ کے سرداروں کے پیغاموں کو رد کر چکی تھیں اوریہ طے کر چکی تھیں کہ اب چالیس برس کی عمر میں تیسرا نکاح نہیں کروں گی اور کہاں خود ہی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو بلایا جو ان کے بھائی عوام بن خویلد کی بیوی تھیں ۔ ان سے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے کچھ ذاتی حالات کے بارے میں مزیدمعلومات حاصل کیں پھر ’’نفیسہ‘‘ بنت امیہ کے ذریعہ خود ہی حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا۔ مشہور امام سیرت محمد بن اسحق نے لکھا ہے کہ اس رشتہ کو پسند کرنے کی جو وجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے خود حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے بیان کی ہے وہ خود ان کے الفاظ میں یہ ہے : ’’ اِنِّیْ قَدْ رَغِبْتُ فِیْکَ لِحُسْنِ خُلْقِکَ وَصِدْقِ حَدِیْـثِکَ ‘‘ یعنی میں نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اچھے اخلاق اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سچائی کی وجہ سے آپ کو پسند کیا۔ 1

(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۲۰۰)

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس رشتہ کو اپنے چچاابو طالب اور خاندان کے دوسرے بڑے بوڑھوں کے سامنے پیش فرمایا۔ بھلا حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہاجیسی پاک دامن، شریف، عقلمند اور مالدار عورت سے شادی کرنے کو کون نہ کہتا؟ سارے خاندان والوں نے نہایت خوشی کے ساتھ اس رشتہ کو منظور کر لیا۔اورنکاح کی تاریخ مقرر ہوئی اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابو طالب وغیرہ اپنے چچاؤں اور خاندان کے دوسرے افراد اور شرفاء بنی ہاشم و سرداران مضر کو اپنی برات میں لے کر حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہاکے مکان پر تشریف لے گئے اور نکاح ہوا۔ اس نکاح کے وقت ابوطالب نے نہایت ہی فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ سے بہت اچھی طرح اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اعلانِ نبوت سے پہلے آپ کے خاندانی بڑے بوڑھوں کا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے متعلق کیسا خیال تھااور آپ کے اخلاق و عادات نے ان لوگوں پر کیسا اثر ڈالا تھا۔ 2 ابو طالب کے اس خطبہ کا ترجمہ یہ ہے :

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہم لوگوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں بنایا اور ہم کو معد اور مضر کے خاندان میں پیدا فرمایا اور اپنے گھر(کعبہ) کا نگہبان اور اپنے حرم کا منتظم بنایااور ہم کو علم و حکمت والا گھر اور امن والا حرم عطا فرمایا اور ہم کو لوگوں پر حاکم بنایا۔

یہ میرے بھائی کا فرزند محمد بن عبداللہ ہے۔ یہ ایک ایسا جوان ہے کہ قریش کے جس شخص کا بھی اس کے ساتھ موازنہ کیا جائے یہ اس سے ہر شان میں بڑھا ہوا ہی رہے گا۔ ہاں مال اس کے پاس کم ہے لیکن مال تو ایک ڈھلتی ہوئی چھاؤں اور ادل بدل ہونے والی چیز ہے۔ اما بعد! میرا بھتیجا محمد(صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم)وہ شخص ہے جس کے ساتھ میری قرابت اور قربت و محبت کو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔ وہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح کرتا ہے اور میرے مال میں سے بیس اونٹ مہر مقرر کرتا ہے اور اس کا مستقبل بہت ہی تابناک، عظیم الشان اور جلیل القدر ہے۔ 3

(زرقانی علی المواہب ج۱ ص۲۰۱)

جب ابو طالب اپنا یہ ولولہ انگیز خطبہ ختم کر چکے تو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل نے بھی کھڑے ہو کر ایک شاندار خطبہ پڑھا۔ جس کا مضمون یہ ہے :

خدا ہی کے لئے حمد ہے جس نے ہم کو ایسا ہی بنایا جیسا کہ اے ابو طالب ! آپ نے ذکر کیااور ہمیں وہ تمام فضیلتیں عطا فرمائی ہیں جن کو آپ نے شمار کیا۔ بلا شبہ ہم لوگ عرب کے پیشوا اور سردار ہیں اور آپ لوگ بھی تمام فضائل کے اہل ہیں ۔ کوئی قبیلہ آپ لوگوں کے فضائل کا انکار نہیں کر سکتااور کوئی شخص آپ لوگوں کے فخر و شرف کو رد نہیں کر سکتا اور بے شک ہم لوگوں نے نہایت ہی رغبت کے ساتھ آپ لوگوں کے ساتھ ملنے اور رشتہ میں شامل ہونے کو پسند کیا۔ لہٰذا اے قریش! تم گواہ رہو کہ خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ تعالٰی عنہا کو میں نے محمد بن عبداللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم و رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی زوجیت میں دیا چارسو مثقال مہر کے بدلے۔ 4

غرض حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا نکاح ہوگیا اور حضور محبوب خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا خانہ معیشت ازدواجی زندگی کے ساتھ آباد ہو گیا۔حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تقریباً ۲۵ برس تک حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت میں رہیں اور ان کی زندگی میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ایک فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا باقی آپ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ جن کا تفصیلی بیان آگے آئے گا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنی ساری دولت حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے قدموں پرقربان کر دی اور اپنی تمام عمر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی غمگساری اور خدمت میں نثار کر دی۔


-: کعبہ کی تعمیر

-: کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا ؟

-: مخصوص احباب

-: موحدین عرب سے تعلقات

-: کاروباری مشاغل

-: غیر معمولی کردار