اعلانِ نبوّت سے پہلے

-: جنگِ فجار

-: حلف الفُضول

-: ملک ِشام کا دوسرا سفر

-: نکاح

-: کعبہ کی تعمیر

-: کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا ؟

-: مخصوص احباب

-: موحدین عرب سے تعلقات

-: کاروباری مشاغل

-: غیر معمولی کردار

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا زمانہ طفولیت ختم ہوا اور جوانی کا زمانہ آیا تو بچپن کی طرح آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی جوانی بھی عام لوگوں سے نرالی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا شباب مجسم حیاء اور چال چلن عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلانِ نبوت سے قبل حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی تمام زندگی بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی۔ سچائی، دیانتداری، وفاداری، عہد کی پابندی، بزرگوں کی عظمت، چھوٹوں پر شفقت، رشتہ داروں سے محبت، رحم و سخاوت ، قوم کی خدمت، دوستوں سے ہمدردی، عزیزوں کی غمخواری، غریبوں اور مفلسوں کی خبرگیری، دشمنوں کے ساتھ نیک برتاؤ، مخلوق خدا کی خیرخواہی، غرض تمام نیک خصلتوں اور اچھی اچھی باتوں میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اتنی بلند منزل پر پہنچے ہوئے تھے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسانوں کیلئے وہاں تک رسائی تو کیا؟ اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔

کم بولنا، فضول باتوں سے نفرت کرنا، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دوستوں اوردشمنوں سے ملنا۔ ہر معاملہ میں سادگی اور صفائی کے ساتھ بات کرنا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا خاص شیوہ تھا۔

حرص، طمع، دغا، فریب، جھوٹ، شراب خوری، بدکاری، ناچ گانا، لوٹ مار، چوری، فحش گوئی، عشق بازی، یہ تمام بری عادتیں اور مذموم خصلتیں جو زمانہ جاہلیت میں گویا ہر بچے کے خمیر میں ہوتی تھیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی ذات گرامی ان تمام عیوب و نقائص سے پاک صاف رہی۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی راست بازی اور امانت و دیانت کا پورے عرب میں شہرہ تھا اور مکہ کے ہر چھوٹے بڑے کے دلوں میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے برگزیدہ اخلاق کااعتبار، اور سب کی نظروں میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا ایک خاص وقار تھا۔

بچپن سے تقریباً چالیس برس کی عمر شریف ہو گئی۔ لیکن زمانہ جاہلیت کے ماحول میں رہنے کے باوجود تمام مشرکانہ رسوم، اور جاہلانہ اطوار سے ہمیشہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا دامن عصمت پاک ہی رہا۔ مکہ شرک و بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ خود خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے خاندان والے ہی کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے کبھی بھی بتوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔

غرض نزول وحی اور اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مقدس زندگی اخلاق حسنہ اور محاسن افعال کا مجسمہ اور تمام عیوب و نقائص سے پاک و صاف رہی ۔چنانچہ اعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے دشمنوں نے انتہائی کوشش کی کہ کوئی ادنیٰ سا عیب، یا ذرا سی خلاف تہذیب کوئی بات آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی زندگی کے کسی دور میں بھی مل جائے تو اس کو اچھال کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے وقار پر حملہ کرکے لوگوں کی نگاہوں میں آپ کو ذلیل و خوار کر دیں ۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہزاروں دشمن سوچتے سوچتے تھک گئے لیکن کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں مل سکا جس سے وہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر انگشت نمائی کر سکیں ۔ لہٰذا ہر انسان اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہے کہ بلا شبہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا کردار انسانیت کا ایک ایسا محیرالعقول اور غیر معمولی کردار ہے جو نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا کسی دوسرے کے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلانِ نبوت کے بعد سعید روحیں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا کلمہ پڑھ کر تن من دھن کے ساتھ اس طرح آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم پر قربان ہونے لگیں کہ ان کی جاں نثاریوں کو دیکھ کر شمع کے پروانوں نے جاں نثاری کا سبق سیکھا۔ اور حقیقت شناس لوگ فرط عقیدت سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے حسن صداقت پر اپنی عقلوں کو قربان کرکے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بتائے ہوئے اسلامی راستہ پر عاشقانہ اداؤں کے ساتھ زبان حال سے یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ ؎

چلو وادیٔ عشق میں پا برہنہ!

یہ جنگل وہ ہے جس میں کانٹا نہیں ہے