اعلانِ نبوّت سے پہلے

-: جنگِ فجار

-: حلف الفُضول

-: ملک ِشام کا دوسرا سفر

-: نکاح

-: کعبہ کی تعمیر

-: کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا ؟

-: مخصوص احباب

-: موحدین عرب سے تعلقات

عرب میں اگر چہ ہر طرف شرک پھیل گیا تھا اور گھر گھر میں بت پرستی کا چرچا تھا ۔مگر اس ماحول میں بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو توحید کے پرستار، اورشرک و بت پرستی سے بیزار تھے ۔ انہی خوش نصیبوں میں زید بن عمرو بن نفیل ہیں ۔ یہ علی الاعلان شرک و بت پرستی سے انکار، اور جاہلیت کی مشرکانہ رسموں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ یہ حضرت عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے چچا زاد بھائی ہیں ۔ شرک و بت پرستی کے خلاف اعلان مذمت کی بنا پر ان کا چچا ’’خطاب بن نفیل‘‘ ان کو بہت زیادہ تکلیفیں دیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کو مکہ سے شہر بدر کر دیا تھا اور ان کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیتا تھا۔ مگر یہ ہزاروں ایذاؤں کے باوجود عقیدۂ توحید پر پہاڑ کی طر ح ڈٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپ کے دو شعر بہت مشہور ہیں جن کو یہ مشرکین کے میلو ں او ر مجمعوں میں بہ آو از بلند سنایا کرتے تھے کہ ؎

اَرَبًّا وَّاحِدًا اَمْ اَلْفَ رَبٍّ

اَدِیْنُ اِذَا تُقُسِّمَتِ الْاُمُوْرٗ

تَرَکْتُ اللَّاتَ وَالْعُزّیٰ جَمِیْعًا

کَذَالِکَ یَفْعَلُ الرَّجُلُ الْبَصِیْرٗ

یعنی کیا میں ایک رب کی اطاعت کروں یا ایک ہزار رب کی ؟جب کہ لوگوں کے دینی معاملات تقسیم ہو چکے ہیں ۔ میں نے تولات وعزیٰ کو چھوڑ دیا ہے۔ اور ہر بصیرت والا ایسا ہی کرے گا۔ 1

(سیرت ابن ہشام ج ۱ص۲۲۶)

یہ مشرکین کے دین سے متنفر ہو کر دین برحق کی تلاش میں ملک شام چلے گئے تھے۔ وہاں ایک یہودی عالم سے ملے۔ پھر ایک نصرانی پادری سے ملاقات کی اور جب آپ نے یہودی و نصرانی دین کو قبول نہیں کیاتو ان دونوں نے ’’دین حنیف‘‘کی طرف آپ کی رہنمائی کی جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ عَلَیْہِ السَّلام کا دین تھا اور ان دونوں نے یہ بھی بتایا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلام نہ یہودی تھے نہ نصرانی، اور وہ ایک خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ یہ سن کر زید بن عمر و بن نفیل ملک شام سے مکہ واپس آگئے۔ اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر مکہ میں بہ آواز بلند یہ کہا کرتے تھے کہ اے لوگو! گواہ رہو کہ میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلام کے دین پر ہوں ۔ 2

(سیرت ابن ہشام ج ۱ص۲۲۵)

اعلانِ نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے ساتھ زید بن عمرو بن نفیل کو بڑا خاص تعلق تھا اورکبھی کبھی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما راوی ہیں کہ ایک مرتبہ وحی نازل ہونے سے پہلے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی مقام ’’بلدح‘‘کی ترائی میں زید بن عمرو بن نفیل سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے سامنے دسترخوان پر کھانا پیش کیا ۔جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے کھانے سے انکار کر دیا، تو زید بن عمرو بن نفیل کہنے لگے کہ میں بتوں کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا۔ میں صرف وہی ذبیحہ کھاتا ہوں جو اللہ تَعَالٰی کے نام پر ذبح کیا گیاہو۔ پھر قریش کے ذبیحوں کی برائی بیان کرنے لگے اور قریش کو مخاطب کرکے کہنے لگے کہ بکری کو اللہ تَعَالٰی نے پیدا فرمایا اور اللہ تَعَالٰی نے اس کے لئے آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے گھاس ا گائی۔ پھر اے قریش! تم بکری کو اللہ کے غیر (بتوں ) کے نام پر ذبح کرتے ہو؟ 3

حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہما کہتی ہیں کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو دیکھا کہ وہ خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے ہوئے کہتے تھے کہ اے جماعت قریش! خدا کی قسم! میرے سوا تم میں سے کوئی بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلام کے دین پر نہیں ہے۔ 4

(بخاری ج۱ باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل ص۵۴۰)


-: کاروباری مشاغل

-: غیر معمولی کردار