ہجرت کا دسواں سال

-: حجۃ الوداع

-: شہنشاہِ کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا تخت شاہی

یہ حیرت انگیز و عبرت خیز واقعہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت شہنشاہ کونین، خدا عزوجل کے نائب اکرم اور خلیفہ اعظم ہونے کی حیثیت سے فرمان ربانی کا اعلان فرما رہے تھے آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا تخت ِ شہنشاہی یعنی اونٹنی کا کجاوہ اور عرق گیر شاید دس روپے سے زیادہ قیمت کا نہ تھا نہ اس اونٹنی پر کوئی شاندار کجاوہ تھا نہ کوئی ہودج نہ کوئی محمل نہ کوئی چتر نہ کوئی تاج ۔

کیا تاریخ عالم میں کسی اور بادشاہ نے بھی ایسی سادگی کا نمونہ پیش کیا ہے ؟ اس کا جواب یہی اور فقط یہی ہے کہ ” نہیں۔ “

یہ وہ زاہدانہ شہنشاہی ہے جو صرف شہنشاہ دو عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی شہنشاہیت کا طرئہ امتیاز ہے !

خطبہ کے بعد آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ظہر و عصر ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا فرمائی پھر ” موقف ” میں تشریف لے گئے اور جبل رحمت کے نیچے غروبِ آفتاب تک دعاؤں میں مصروف رہے۔ غروب آفتاب کے بعد عرفات سے ایک لاکھ سے زائد حجاج کے ازدحام میں ” مزدلفہ ” پہنچے۔ یہاں پہلے مغرب پھر عشاء ایک اذان اور دو اقامتوں سے ادا فرمائی۔ مشعرِ حرام کے پاس رات بھر امت کے لئے دعائیں مانگتے رہے اور سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ کے لئے روانہ ہو گئے اور وادی محسر کے راستہ سے منیٰ میں آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ” جمرہ ” کے پاس تشریف لائے اور کنکریاں ماریں پھر آپ نے بآواز بلند فرمایا کہ

لِتَاخُذُوْا مَنَاسِكَكُمْ فَاِنِّىْ لَا اَدْرِىْ لَعَلِّىْ لَا اَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِىْ هٰذِهٖ

حج کے مسائل سیکھ لو ! میں نہیں جانتا کہ شاید اس کے بعد میں دوسرا حج نہ کروں گا۔

(مسلم ج۱ ص۴۱۹ باب رمی جمرة العقبه)

منیٰ میں بھی آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک طویل خطبہ دیا جس میں عرفات کے خطبہ کی طرح بہت سے مسائل و احکام کا اعلان فرمایا۔ پھر قربان گاہ میں تشریف لے گئے۔ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کے ایک سو اونٹ تھے کچھ کو تو آپ نے اپنے دست مبارک سے ذبح فرمایا اور باقی حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو سونپ دیا اور گوشت، پوست، جھول، نکیل سب کو خیرات کر دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ قصاب کی مزدوری بھی اس میں سے نہ ادا کی جائے بلکہ الگ سے دی جائے۔

-: موئے مبارک

-: ساقی کوثر چاہ زمزم پر

-: غدیر خم کاخطبہ

-: روافض کا ایک شبہ