ہجرت کا دسواں سال

-: حجۃ الوداع

-: شہنشاہِ کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا تخت شاہی

-: موئے مبارک

-: ساقی کوثر چاہ زمزم پر

-: غدیر خم کاخطبہ

راستہ میں مقام ” غدیر خم ” پر جو ایک تالاب ہے یہاں تمام ہمراہیوں کو جمع فرما کر ایک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے :

حمد و ثنا کے بعد : اے لوگو ! میں بھی ایک آدمی ہوں ممکن ہے کہ خداعزوجل کا فرشتہ(ملک الموت) جلد آ جائے اور مجھے اس کا پیغام قبول کرنا پڑے میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑتا ہوں۔ ایک خدا عزوجل کی کتاب جس میں ہدایت اور روشنی ہے اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں خدا عزوجل کی یاد دلاتا ہوں۔

(مسلم ج۱ ص۲۷۹ باب من فضائل علی)

اس خطبہ میں آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِىٌّ مَوْلَاىُ اَللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَّالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ

(مشکوٰۃ ص۵۶۵ مناقب علی)

جس کا میں مولا ہوں علی بھی اسکے مولیٰ، خداوندا ! عزوجل جو علی سے محبت رکھے اس سے تو بھی محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے اس سے تو بھی عداوت رکھ۔

غدیر خم کے خطبہ میں حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے فضائل و مناقب بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی اس کی کوئی تصریح کہیں حدیثوں میں نہیں ملتی۔ ہاں البتہ بخاری کی ایک روایت سے پتا چلتا ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنے اختیار سے کوئی ایسا کام کر ڈالا تھا جس کو ان کے یمن سے آنے والے ہمراہیوں نے پسند نہیں کیا یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے بارگاہ رسالت میں اس کی شکایت بھی کر دی جس کا حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ علی کو اس سے زیادہ کا حق ہے۔ ممکن ہے اسی قسم کے شبہات و شکوک کو مسلمان یمنیوں کے دِلوں سے دور کرنے کے لئے اس موقع پر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت علی اور اہل بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے فضائل بھی بیان کر دیئے ہوں۔

(بخاری باب بعث علی الی اليمن ج۲ ص۲۲۳ و ترمذی مناقب علی)

-: روافض کا ایک شبہ