اولادِ کرام
- حضرت قاسم رضی اللہ تعالٰی عنہ
- حضرت عبداﷲ رضی اللہ تعالٰی عنہ
- حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ
- حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا
- حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
-: حضرت قاسم رضی اللہ تعالٰی عنہ

اس بات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی اولاد کرام کی تعداد چھ ہے۔ دو فرزند حضرت قاسم و حضرت ابراہیم اور چار صاحبزادیاں حضرت زینب و حضرت رقیہ و حضرت ام کلثوم و حضرت فاطمہ (رضی اﷲ تعالٰی عنہم) لیکن بعض مؤرخین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ایک صاحبزادے عبداﷲ بھی ہیں جن کا لقب طیب و طاہر ہے۔ اس قول کی بنا پر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مقدس اولاد کی تعداد سات ہے۔ تین صاحبزادگان اورچار صاحبزادیاں، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ نے اسی قول کو زیادہ صحیح بتایا ہے۔ اس کے علاوہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی مقدس اولاد کے بارے میں دوسرے اقوال بھی ہیں جن کا تذکرہ طوالت سے خالی نہیں۔
حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ان ساتوں مقدس اولاد میں سے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے شکم سے تولد ہوئے تھے باقی تمام اولاد کرام حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بطن مبارک سے پیدا ہوئیں۔
(زرقانی جلد ۲ ص۱۹۳ و مدارج النبوۃ جلد ۳ ص ۴۵۱)
اب ہم ان اولادِکرام کے ذکر ِ جمیل پر قدرے تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں۔
-: حضرت قاسم رضی اللہ تعالٰی عنہ
یہ سب سے پہلے فرزند ہیں جو حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی آغوش مبارک میں اعلانِ نبوت سے قبل پیدا ہوئے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم ان ہی کے نام پر ہے۔ جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ یہ پاؤں پر چلنا سیکھ گئے تھے کہ ان کی وفات ہوگئی اور ابن سعد کا بیان ہے کہ ان کی عمر شریف دو برس کی ہوئی مگر علامہ غلابی کہتے ہیں کہ یہ فقط سترہ ماہ زندہ رہے۔ واﷲ اعلم۔
(زرقانی جلد۳ ص ۱۹۴)
-: حضرت عبداﷲ رضی اللہ تعالٰی عنہ

-: حضرت عبداﷲ رضی اللہ تعالٰی عنہ
ان ہی کا لقب طیب و طاہر ہے۔ اعلانِ نبوت سے قبل مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور بچپن ہی میں وفات پا گئے۔
-: حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ

-: حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ
یہ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی اولاد مبارکہ میں سب سے آخری فرزند ہیں۔ یہ ذوالحجہ ۸ ھ میں مدینہ منورہ کے قریب مقام “عالیہ” کے اندر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے۔ اس لیے مقام عالیہ کا دوسرا نام”مشربۂ ابراہیم “بھی ہے۔ ان کی ولادت کی خبر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مقام عالیہ سے مدینہ آ کر بارگاہِ اقدس میں سنائی۔ یہ خو ش خبری سن کر حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے انعام کے طور پر حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایک غلام عطا فرمایا۔ اس کے بعد فوراً ہی حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو “یااباابراہیم” (اے ابراہیم کے باپ) کہہ کر پکارا، حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے اور ان کے عقیقہ میں دو مینڈھے آپ نے ذبح فرمائے اور ان کے سر کے بال کے وزن کے برابر چاندی خیرات فرمائی اور ان کے بالوں کو دفن کرادیا اور ” ابراہیم ” نام رکھا، پھر ان کو دودھ پلانے کے لیے حضرت ” ام سیف ” رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سپرد فرمایا۔ ان کے شوہر حضرت ابو سیف رضی اللہ تعالٰی عنہ لوہاری کا پیشہ کرتے تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بہت زیادہ محبت تھی اورکبھی کبھی آپ ان کو دیکھنے کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوسیف رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مکان پر گئے تو یہ وہ وقت تھا کہ حضرت ابراہیم جان کنی کے عالم میں تھے۔ یہ منظر دیکھ کر رحمت ِعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس وقت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ یاسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے عوف کے بیٹے!یہ میرا رونا ایک شفقت کا رونا ہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جب چشمان مبارک سے آنسو ب ہے تو آپ کی زبان مبارک پریہ کلمات جاری ہوگئے کہ
اِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَ الْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلاَّ مَا يَرْضٰی رَبُّنَا وَاِنَّا بِفِرَاقِکَ يَا اِبْرَاهِيْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ
آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہے مگر ہم وہی بات زبان سے نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہو جائے اور بلاشبہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بہت زیادہ غمگین ہیں۔
جس دن حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتقال ہوا اتفاق سے اسی دن سورج میں گرہن لگا۔ عربوں کے دلوں میں زمانہ جاہلیت کا یہ عقیدہ جما ہوا تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت سے چاند اور سورج میں گرہن لگتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے یہ خیال کیا کہ غالباً یہ سورج گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات کی و جہ سے ہوا ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اس موقع پر ایک خطبہ دیا جس میں جاہلیت کے اس عقیدہ کا رد فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
اِنَّ اْلشَّمْسَ وَالْقَمَرَ اٰيَتَانِ مِنْ اٰيٰاتِ اللهِ لَا يَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتهِ فَاِذَا رَاَيْتُمُوْهَا فَادْعُوا اللهَ وَصَلُّوْا حَتّٰی يَنْجَلِيْ
(بخاری جلد ۱ ص۱۴۵ باب الدعاء فی الکسوف)
یقینا چاند اور سورج اﷲ تعالٰی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کے مرنے یا جینے سے ان دونوں میں گرہن نہیں لگتا جب تم لوگ گرہن دیکھو تو دعائیں مانگو اور نماز کسوف پڑھو یہاں تک کہ گرہن ختم ہو جائے۔
حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میرے فرزند ابراہیم نے دودھ پینے کی مدت پوری نہیں کی اور دنیا سے چلا گیا۔ اس لیے اﷲ تعالٰی نے اس کے لیے بہشت میں ایک دودھ پلانے والی کو مقرر فرما دیا ہے جو مدت رضاعت بھر اس کو دودھ پلاتی رہے گی۔
(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۲۵۴)
روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم رضی اﷲتعالٰی عنہ کو جنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبر کے پاس دفن فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے ان کی قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کیا۔
(مدارج النبوۃ جلد۲ ص ۴۵۳)
بوقت وفات حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عمر شریف ۱۷ یا ۱۸ ماہ کی تھی۔ واﷲ تعالٰی اعلم
-: حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا
یہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ اعلانِ نبوت سے دس سال قبل جب کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عمرشریف تیس سال کی تھی مکہ مکرمہ میں ان کی ولادت ہوئی۔ یہ ابتداء اسلام ہی میں مسلمان ہوگئی تھیں اور جنگ ِبدر کے بعد حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ بلالیا تھا اور یہ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئیں۔
اعلانِ نبوت سے قبل ہی ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابوالعاص بن ربیع سے ہوگئی تھی۔ ابوالعاص حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی بہن حضرت ہالہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بیٹے تھے۔ حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی سفارش سے حضرت ز ینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کا ابو العاص کے ساتھ نکاح فرمادیا تھا۔ حضرت ز ینب تو مسلمان ہوگئی تھیں مگر ابو العاص شرک و کفر پر اڑا رہا۔ رمضان ۲ ھ میں جب ابوالعاص جنگِ بدر سے گرفتار ہو کر مدینہ آئے۔ اس وقت تک حضرت ز ینب رضی اللہ تعالٰی عنہا مسلمان ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ ہی میں مقیم تھیں۔ چنانچہ ابو العاص کو قید سے چھڑانے کے لیے انہوں نے مدینہ میں اپنا وہ ہار بھیجا جو ان کی ماں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ان کو جہیز میں دیاتھا۔ یہ ہار حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا اشارہ پاکر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے حضرت ز ینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس واپس بھیج دیا اور حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ابو العاص سے یہ وعدہ لے کر ان کو رہا کر دیا کہ وہ مکہ پہنچ کر حضرت ز ینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کو مدینہ منورہ بھیج دیں گے۔ چنانچہ ابو العاص نے اپنے وعدہ کے مطابق حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کو اپنے بھائی کنانہ کی حفاظت میں ” بطن یا جج” تک بھیج دیا۔ ادھر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایک انصاری کے ساتھ پہلے ہی مقام ” بطن یا جج” میں بھیج دیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات ” بطن یا جج” سے اپنی حفاظت میں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کو مدینہ منورہ لائے۔
منقول ہے کہ جب حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئیں تو کفار قریش نے ان کا راستہ روکا یہاں تک کہ ایک بدنصیب ظالم “ہباربن الاسود” نے ان کو نیزہ سے ڈرا کر اونٹ سے گرا دیا جس کے صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا۔ مگر ان کے دیور کنانہ نے اپنے ترکش سے تیروں کو باہر نکال کر یہ دھمکی دی کہ جو شخص بھی حضرت زینب کے اونٹ کا پیچھا کرے گا۔ وہ میرے ان تیروں سے بچ کر نہ جائے گا۔ یہ سن کر کفار قریش سہم گئے۔ پھر سردار مکہ ابو سفیان نے درمیان میں پڑ کر حضرت ز ینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کے لیے مدینہ منورہ کی روانگی کے لیے راستہ صاف کرا دیا۔
حضرت ز ینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کو ہجرت کرنے میں یہ دردناک مصیبت پیش آئی اسی لیے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے فضائل میں یہ ارشاد فرمایا کہ هِيَ اَفْضَلُ بَنَاتِيْ اُصِيْبَتْ فِيَّ یعنی یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت ہی زیادہ فضیلت والی ہیں کہ میری جانب ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔ اس کے بعد ابو العاص محرم ۷ ھ میں مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے اور حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ رہنے لگے۔
(زرقانی جلد ۳ ص ۱۹۵ تا ۱۹۶)
۸ ھ میں حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات ہوگئی اور حضرت ام ایمن و حضرت سودہ بنت زمعہ و حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہن نے ان کو غسل دیا اورحضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے کفن کے لیے اپنا تہبند شریف عطا فرمایا اور اپنے دست ِمبارک سے ان کو قبر میں اتارا۔
حضرت زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کی اولاد میں ایک لڑکا جس کانام ” علی ” اور ایک لڑکی حضرت ” امامہ ” تھیں۔ ” علی ” کے بارے میں ایک روایت ہے کہ اپنی والدہ ماجدہ کی حیات ہی میں بلوغ کے قریب پہنچ کر وفات پا گئے لیکن ابن عساکر کا بیان ہے کہ نسب ناموں کے بیان کرنے والے بعض علماء نے یہ ذکر کیاہے کہ یہ جنگ یرموک میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔
(زرقانی جلد ۳ ص ۱۹۷)
حضرت امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بڑی محبت تھی۔ آپ ان کو اپنے دوش مبارک پر بٹھا کر مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے تھے۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ کے ایک حلہ بھیجا جس کے ساتھ سونے کی ایک انگوٹھی بھی تھی جس کا نگینہ حبشی تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ انگوٹھی حضرت امامہ کو عطا فرمائی۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار کسی نے حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو نذر کیا جس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہن حیران رہ گئیں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی مقدس بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تمام ازواجِ مطہرات نے یہ خیال کرلیا کہ یقینا یہ ہار حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت امامہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کو قریب بلایا اور اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے دست ِمبارک سے یہ ہار ڈال دیا۔
(زرقانی جلد ۳ ص۱۹۷)
-: حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
یہ اعلان نبوت سے سات برس پہلے جب کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عمر شریف کا تینتیسواں سال تھا پیدا ہوئیں اور ابتداء اسلام ہی میں مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ پہلے ان کا نکاح ابولہب کے بیٹے ” عتبہ ” سے ہوا تھا لیکن ابھی ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ “سورہ تبت یدا” نازل ہوگئی۔ ابو لہب قرآن میں اپنی اس دائمی رسوائی کا بیان سن کر غصہ میں آگ بگولا ہوگیا اور اپنے بیٹے عتبہ کو مجبور کردیا کہ وہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو طلاق دے دے۔ چنانچہ عتبہ نے طلاق دے دی۔
اس کے بعد حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کردیا۔ نکاح کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو ساتھ لے کر مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر حبشہ سے مکہ واپس آ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور یہ میاں بیوی دونوں “صاحب الہجرتین” (دو ہجرتوں والے) کے معزز لقب سے سرفراز ہوگئے۔ جنگ ِ بدر کے دنوں میں حضرت رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بہت سخت بیمار تھیں۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جنگ ِ بدر میں شریک ہونے سے روک دیا اور یہ حکم دیا کہ وہ حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی تیمار داری کریں۔حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ جس دن جنگ ِ بدر میں مسلمانوں کی فتح مبین کی خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے اسی دن حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے بیس سال کی عمر پا کر وفات پائی۔ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم جنگ ِ بدر کے سبب سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ اگرچہ جنگ ِ بدر میں شریک نہ ہوئے لیکن حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کو جنگ ِبدر کے مجاہدین میں شمار فرمایا اور جنگ ِ بدر کے مالِ غنیمت میں سے ان کو مجاہدین کے برابر حصہ بھی عطا فرمایا اور شرکاء جنگ ِ بدر کے برابر اجر عظیم کی بشارت بھی دی۔
حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے شکم مبارک سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک فرزند بھی پیدا ہوئے تھے جن کا نام “عبداﷲ” تھا۔ یہ اپنی ماں کے بعد ۴ ھ میں چھ برس کی عمر پا کر انتقال کرگئے۔ ( رضی اللہ تعالٰی عنہ)
(زرقانی جلد ۳ ص۱۹۸ تا ۱۹۹)
-: حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا

-: حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا
یہ پہلے ابولہب کے بیٹے ” عتیبہ ” کے نکاح میں تھیں لیکن ابولہب کے مجبور کر دینے سے بدنصیب عتیبہ نے ان کو رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی اور اس ظالم نے بارگاہِ نبوت میں انتہائی گستاخی بھی کی۔ یہاں تک کہ بدزبانی کرتے ہوئے حضور رحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پر جھپٹ پڑا اور آپ کے مقدس پیراہن کو پھاڑ ڈالا۔ اس گستاخ کی بے ادبی سے آپ کے قلب نازک پر انتہائی رنج و صدمہ گزرا اور جوش غم میں آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکل پڑے کہ “یا اﷲ! اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو اس پر مسلط فرما دے۔”
اس دعاء نبوی کا یہ اثر ہوا کہ ابولہب اورعتیبہ دونوں تجارت کے لیے ایک قافلہ کے ساتھ ملک شام گئے اور مقامِ ” زرقا ” میں ایک راہب کے پاس رات میں ٹھہرے راہب نے قافلہ والوں کو بتایا کہ یہاں درندے بہت ہیں۔ آپ لوگ ذرا ہوشیار ہو کر سوئیں۔ یہ سن کر ابولہب نے قافلہ والوں سے کہا کہ اے لوگوں ! محمد (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) نے میرے بیٹے عتیبہ کے لیے ہلاکت کی دعا کر دی ہے۔ لہٰذا تم لوگ تمام تجارتی سامانوں کو اکٹھا کر کے اس کے اوپر عتیبہ کا بستر لگا دو اور سب لوگ اس کے ارد گرد چاروں طرف سو رہو تا کہ میرا بیٹا درندوں کے حملہ سے محفوظ رہے۔ چنانچہ قافلہ والوں نے عتیبہ کی حفاظت کا پورا پورا بندوبست کیا لیکن رات میں بالکل ناگہاں ایک شیر آیا اور سب کو سونگھتے ہوئے کود کر عتیبہ کے بستر پرپہنچا اور اس کے سر کو چبا ڈالا۔ لوگوں نے ہر چند شیر کو تلاش کیا مگر کچھ بھی پتا نہیں چل سکا کہ یہ شیر کہاں سے آیا تھا؟ اور کدھر چلا گیا۔
(زرقانی جلد ۳ ص ۱۹۷ تا۱۹۸)
خدا کی شان دیکھئے کہ ابولہب کے دونوں بیٹوں عتبہ اور عتیبہ نے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی دونوں شہزادیوں کو اپنے باپ کے مجبور کرنے سے طلاق دے دی مگر عتبہ نے چونکہ بارگاہِ نبوت میں کوئی گستاخی اور بے ادبی نہیں کی تھی۔ اس لیے وہ قہر الٰہی میں مبتلا نہیں ہوا بلکہ فتح مکہ کے دن اس نے اور اس کے ایک دوسرے بھائی “معتب” دونوں نے اسلام قبول کرلیا اور دست ِ اقدس پر بیعت کر کے شرف صحابیت سے سرفراز ہوگئے۔ اور “عتیبہ” نے اپنی خباثت سے چونکہ بارگاہِ اقدس میں گستاخی و بے ادبی کی تھی اس لیے وہ قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار ہو کر کفر کی حالت میں ایک خونخوار شیر کے حملہ کا شکار بن گیا۔ (والعیا ذ باﷲ تعالٰی منہ)
حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات کے بعد ربیع الاول ۳ ھ میں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بی بی ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا کا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نکاح کر دیا مگر ان کے شکم مبارک سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ شعبان ۹ ھ میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا نے وفات پائی اورحضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور یہ جنۃ البقیع میں مدفون ہوئیں۔
(زرقانی جلد۳ ص۲۰۰)
-: حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا

یہ شہنشاہِ کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اورلاڈلی شہزادی ہیں ۔ ان کا نام ’’فاطمہ‘‘ اورلقب ’’زہرا‘‘ اور ’’بتول‘‘ ہے۔ ان کی پیدائش کے سال میں علماء مؤرخین کااختلاف ہے۔ ابو عمر کا قول ہے کہ اعلان نبوت کے پہلے سال جب کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عمر شریف اکتالیس برس کی تھی یہ پیدا ہوئیں اور بعض نے لکھا ہے کہ اعلان نبوت سے ایک سال قبل ان کی ولادت ہوئی اور علامہ ابن الجوزی نے یہ تحریر فرمایا کہ اعلان نبوت سے پانچ سال قبل ان کی پیدائش ہوئی۔ 1 واﷲ تعالٰی اعلم۔
(فهرست زرقانی علی المواهب جلد۵)
اﷲ اکبر! ان کے فضائل و مناقب کاکیا کہنا؟ ان کے مراتب و درجات کے حالات سے کتب احادیث کے صفحات مالامال ہیں ۔ جن کاتذکرہ ہم نے اپنی کتاب ’’حقانی تقریریں ‘‘ میں تحریر کر دیا ہے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ سیدۃ نساء العالمین(تمام جہان کی عورتوں کی سردار) اور سیدۃ نساء اہل الجنۃ (اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار) ہیں ۔ ان کے حق میں ارشاد نبوی ہے کہ فاطمہ میری بیٹی میرے بدن کی ایک بوٹی ہے جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ 2
(مشکوٰۃ ص۵۶۸ مناقب اہل بیت وزرقانی جلد۳ص۲۰۴)
۲ ھمیں حضرت علی شیر خدا رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ان کا نکاح ہوا اور ان کے شکم مبارک سے تین صاحبزادگان حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اﷲ تعالٰی عنہم اور تین صاحبزادیوں زینب و ام کلثوم و رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہن کی ولادت ہوئی۔ حضرت محسن و رقیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہما تو بچپن ہی میں وفات پاگئے۔ام کلثوم رضی اﷲ تعالٰی عنہا کا نکاح امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہوا۔ جن کے شکم مبارک سے آپ کے ایک فرزند حضرت زید اور ایک صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہما کی پیدائش ہوئی اور حضرت زینب رضی اﷲ تعالٰی عنہا کی شادی حضرت عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہوئی۔ 3
(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص۴۶۰)
حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وصال شریف کا حضرت بی بی فاطمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے قلب مبارک پر بہت ہی جانکاہ صدمہ گزرا۔ چنانچہ وصال اقدس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کبھی ہنستی ہوئی نہیں دیکھی گئیں ۔ یہاں تک کہ وصال نبوی کے چھ ماہ بعد ۳ رمضان ۱۱ ھ منگل کی رات میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت علی یاحضرت عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور سب سے زیادہ صحیح اورمختار قول یہی ہے کہ جنۃ البقیع میں مدفون ہوئیں ۔ 4
(مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۴۶۱)
1
المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی ، باب فی ذکر اولادہ الکرام ، ج۴، ص ۳۳۱
2
المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب فی ذکر اولادہ الکرام، ج۴، ص۳۳۵، ۳۳۶ ومشکاۃ المصابیح، کتاب المناقب، باب مناقب اھل بیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الحدیث : ۶۱۳۸، ۶۱۳۹، ج۲، ص۴۳۵، ۴۳۶
3
مدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب اول ، ج ۲ ، ص ۴۶۰ والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب فی ذکر اولادہ الکرام ، ج۴، ص۳۴۰، ۳۴۱
4
مدارج النبوت ، قسم پنجم ، باب اول ، ج ۲ ، ص۴۶۱