ہجرت کا چوتھا سال

-: سریہ ابو سلمہ

-: سریہ عبداﷲ بن انیس

-: حادثۂ رجیع

-: حضرت خبیب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبر

-: حضرت زید کی شہادت

-: واقعہ ٔ بیر معونہ

-: غزوۂ بنو نضیر

حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے قبیلۂ بنو کلاب کے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان دونوں کا خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرما دیا تھااسی معاملہ کے متعلق گفتگو کرنے کے لئے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قبیلۂ بنو نضیر کے یہودیوں کے پاس تشریف لے گئے کیونکہ ان یہودیوں سے آپ کا معاہدہ تھا مگر یہودی در حقیقت بہت ہی بدباطن ذہنیت والی قوم ہیں معاہدہ کرلینے کے باوجود ان خبیثوں کے دلوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دشمنی اور عناد کی آگ بھری ہوئی تھی۔ ہر چند حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان بدباطنوں سے اہل کتاب ہونے کی بنا پر اچھا سلوک فرماتے تھے مگر یہ لوگ ہمیشہ اسلام کی بیخ کنی اور بانیٔ اسلام کی دشمنی میں مصروف رہے۔ مسلمانوں سے بغض و عناد اور کفار و منافقین سے ساز باز اور اتحاد یہی ہمیشہ ان غداروں کا طرزِ عمل رہا۔ چنانچہ اس موقع پرجب رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان یہودیوں کے پاس تشریف لے گئے تو ان لوگوں نے بظاہر تو بڑے اخلاق کا مظاہرہ کیامگر اندرونی طور پر بڑی ہی خوفناک سازش اور انتہائی خطرناک اسکیم کا منصوبہ بنا لیا۔ 1 حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر و حضرت عمرو حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہم بھی تھے یہودیوں نے ان سب حضرات کو ایک دیوار کے نیچے بڑے احترام کے ساتھ بٹھایااور آپس میں یہ مشورہ کیا کہ چھت پر سے ایک بہت ہی بڑا اور وزنی پتھر ان حضرات پر گرا دیں تا کہ یہ سب لوگ دب کر ہلاک ہوجائیں ۔ چنانچہ عمرو بن جحاش اس مقصد کے لئے چھت کے اوپر چڑھ گیا، محافظ ِحقیقی پر وردگار عالم عَزَّوَجَلَّ نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یہودیوں کی اس ناپاک سازش سے بذریعہ وحی مطلع فرما دیااس لئے فوراً ہی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وہاں سے اٹھ کر چپ چاپ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ چلے آئے اور مدینہ تشریف لا کر صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو یہودیوں کی اس سازش سے آگاہ فرمایااور انصار ومہاجرین سے مشورہ کے بعد ان یہودیوں کے پاس قاصد بھیج دیا 2 کہ چونکہ تم لوگوں نے اپنی اس دسیسہ کاری اور قاتلانہ سازش سے معاہدہ توڑ دیااس لئے اب تم لوگوں کو دس دن کی مہلت دی جاتی ہے کہ تم اس مدت میں مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد جو شخص بھی تم میں کایہاں پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا۔ شہنشاہ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر بنو نضیر کے یہودی جلا وطن ہونے کے لئے تیار ہو گئے تھے مگر منافقوں کا سردار عبداﷲ ابن ابی ان یہودیوں کا حامی بن گیا اور اس نے کہلا بھیجا کہ تم لوگ ہر گز ہر گز مدینہ سے نہ نکلو ہم دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کرنے کوتیارہیں اس کے علاوہ بنو قریظہ اور بنو غطفان یہودیوں کے دو طاقتور قبیلے بھی تمہاری مدد کریں گے۔ بنو نضیر کے یہودیوں کو جب اتنا بڑاسہارامل گیاتووہ شیرہوگئے اورانہوں نے حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ ہم مدینہ چھوڑکرنہیں جا سکتے آپ کے جودل میں آئے کرلیجیے۔ 3

(مدارج جلد۲ ص۱۴۷)

یہودیوں کے اس جواب کے بعد حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی امامت حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے سپرد فرما کر خود بنو نضیر کا قصد فرمایا اور ان یہودیوں کے قلعہ کا محاصرہ کر لیایہ محاصرہ پندرہ دن تک قائم رہاقلعہ میں باہر سے ہر قسم کے سامانوں کا آنا جانا بند ہو گیااور یہودی بالکل ہی محصور و مجبور ہو کر رہ گئے مگر اس موقع پر نہ تو منافقوں کا سردار عبداﷲ بن ابی یہودیوں کی مدد کے لئے آیا نہ بنو قریظہ اور بنو غطفان نے کوئی مدد کی۔ چنانچہ اﷲ تعالٰی نے ان دغا بازوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ

كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْۚ-فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(۱۶) 4

(سورۂ حشر)

ان لوگوں کی مثال شیطان جیسی ہے جب اس نے آدمی سے کہا کہ تو کفر کر پھر جب اس نے کفر کیا تو بولا کہ میں تجھ سے الگ ہوں میں اﷲ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔

یعنی جس طرح شیطان آدمی کو کفر پر ابھارتا ہے لیکن جب آدمی شیطان کے ورغلانے سے کفر میں مبتلا ہو جاتا ہے تو شیطان چپکے سے کھسک کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اسی طرح منافقوں نے بنو نضیر کے یہودیوں کو شہ دے کر دلیربنا دیااور اﷲ کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے لڑادیالیکن جب بنونضیرکے یہودیوں کو جنگ کا سامنا ہوا تو منافق چھپ کر اپنے گھروں میں بیٹھ رہے۔

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قلعہ کے محاصرہ کے ساتھ قلعہ کے آس پاس کھجوروں کے کچھ درختوں کو بھی کٹوا دیاکیونکہ ممکن تھا کہ درختوں کے جھنڈ میں یہودی چھپ کر اسلامی لشکر پر چھاپا مارتے اور جنگ میں مسلمانوں کو دشواری ہو جاتی۔ ان درختوں کو کاٹنے کے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ درخت نہ کاٹے جائیں کیونکہ فتح کے بعدیہ سب درخت مالِ غنیمت بن جائیں گے اور مسلمان ان سے نفع اٹھائیں گے اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ درختوں کے جھنڈکو کاٹ کر صاف کر دینے سے یہودیوں کی کمین گاہوں کو برباد کرنا اور ان کو نقصان پہنچا کر غیظ و غضب میں ڈالنا مقصود ہے، لہٰذا ان درختوں کو کاٹ دینا ہی بہتر ہے اس موقع پر سورۂ حشر کی یہ آیت اتری :

مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآىٕمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ(۵) 5

جو درخت تم نے کاٹے یا جن کو انکی جڑوں پر قائم چھوڑ دیے یہ سب اﷲ کے حکم سے تھاتاکہ خدا فاسقوں کو رسوا کرے۔

مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں جو درخت کاٹنے والے ہیں ان کا عمل بھی درست ہے اور جو کاٹنا نہیں چاہتے وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں کیونکہ کچھ درختوں کو کاٹنا اور کچھ کو چھوڑ دینا یہ دونوں اﷲ تعالٰی کے حکم اور اس کی اجازت سے ہیں ۔6

بہر حال آخر کار محاصرہ سے تنگ آ کر بنو نضیر کے یہودی اس بات پر تیار ہوگئے کہ وہ اپنا اپنا مکان اور قلعہ چھوڑ کر اس شرط پر مدینہ سے باہر چلے جائیں گے کہ جس قدر مال و اسباب وہ اونٹوں پر لے جا سکیں لے جائیں ، حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہودیوں کی اس شرط کو منظور فرما لیااور بنو نضیر کے سب یہودی چھ سو اونٹوں پر اپنا مال و سامان لاد کر ایک جلوس کی شکل میں گاتے بجاتے ہوئے مدینہ سے نکلے کچھ تو ’’خیبر‘‘ چلے گئے اور زیادہ تعداد میں ملک شام جا کر ’’اذرعات‘‘ اور ’’اریحائ‘‘ میں آباد ہو گئے۔

ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد ان کے گھروں کی مسلمانوں نے جب تلاشی لی تو پچاس لوہے کی ٹوپیاں ، پچاس زرہیں ، تین سو چالیس تلواریں نکلیں جو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قبضہ میں آئیں۔ 7

(زرقانی ج۲ ص۷۹ تا ۸۵)

اﷲ تعالٰی نے بنو نضیر کے یہودیوں کی اس جلا وطنی کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ حشر میں اس طرح فرمایا کہ

هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَ جَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِﳳ-مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْاۗ-وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَۗ-فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ(۲)8

(حشر)

اﷲ وہی ہے جس نے کافر کتابیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ان کے پہلے حشر کیلئے (اے مسلمانو!) تمہیں یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ انکے قلعے انہیں اﷲ سے بچا لیں گے تو اﷲ کا حکم ان کے پاس آ گیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا اور اس نے ان کے دلوں میں خوف ڈال دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے ویران کرتے ہیں تو عبرت پکڑو اے نگاہ والو!


1 شرح الزرقانی علی المواھب، حدیث بنی النضیر، ج۲، ص۵۰۸ ملخصاً 2مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب چہارم ، ج۲، ص۱۴۶، ۱۴۷ملتقطاً 3 شرح الزرقانی علی المواھب، حدیث بنی النضیر، ج۲، ص۱۴۷ 4پ۲۸، الحشر : ۱۶ 5پ۲۸، الحشر : ۵ 6 المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، حدیث بنی النضیر، ج۲، ص۵۱۶، ۵۱۷ 7المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، حدیث بنی النضیر، ج۲، ص۵۱۷، ۵۱۸ 8پ۲۸، الحشر : ۲

-: بدر صغریٰ

۴ ھ کے متفرق واقعات :-