عالم حیوانات کے معجزات
- جانوروں کا سجدہ کرنا
- بارگاہ رسالت میں اونٹ کی فریاد
- بے دودھ کی بکری نے دودھ دیا
- تبلیغ اسلام کرنے والا بھیڑیا
- اعلان ایمان کرنے والی گوہ
- انتباہ
-: جانوروں کا سجدہ کرنا

احادیث کی اکثر کتابوں میں چند الفاظ کے تغیر کے ساتھ یہ روایت مذکور ہے کہ ایک انصاری کا اونٹ بگڑ گیاتھا اور وہ کسی کے قابو میں نہیں آتا تھا بلکہ لوگوں کو کاٹنے کے لئے حملہ کیا کرتا تھا۔ لوگوں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کو مطلع کیا۔ آپ نے خود اس اونٹ کے پاس جانے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں نے آپ کو روکا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ) یہ اونٹ لوگوں کو دوڑ کر کتے کی طرح کاٹ کھاتا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’ مجھے اس کا کوئی خوف نہیں ہے‘‘ یہ کہہ کر آپ آگے بڑھے تو اونٹ نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے سامنے آکر اپنی گردن ڈال دی اور آپ کو سجدہ کیا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس کے سر اور گردن پر اپنا دست شفقت پھیر دیا تو وہ بالکل ہی نرم پڑ گیا اور فرمانبردار ہو گیا اور آپ نے اس کو پکڑ کر اس کے مالک کے حوالہ کر دیا۔ پھریہ ارشاد فرمایا کہ خدا کی ہر مخلوق جانتی اور مانتی ہے کہ میں اﷲ کا رسول ہوں لیکن جنوں اور انسانوں میں سے جو کفار ہیں وہ میری نبوت کا اقرار نہیں کرتے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے اونٹ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھ کر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم )جب جانور آپ کو سجدہ کرتے ہیں تو ہم انسانوں کو تو سب سے پہلے آپ کو سجدہ کرنا چاہیے یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر کسی انسان کا دوسرے انسان کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں ۔ 1
(زرقانی جلد۵ ص۱۴۰ تا ص۱۴۱ و مشکوٰۃ جلد۲ ص۵۴۰ باب المعجزات)
1 المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب سجودالجمل وشکواہ الیہ، ج۶، ص۵۳۸۔۵۴۴ملخصاً
-: بارگاہ رسالت میں اونٹ کی فریاد

-: بارگاہ رسالت میں اونٹ کی فریاد
ایک بار حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ کھڑا ہوا زور زور سے چلا رہا تھا۔ جب اس نے آپ کو دیکھا تو ایک دم بلبلانے لگا اور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قریب جا کر اس کے سر اور کنپٹی پر اپنا دست شفقت پھیرا تو وہ تسلی پا کر بالکل خاموش ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ لوگوں نے ایک انصاری کا نام بتایا، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فوراً ان کو بلوایا اور فرمایا کہ اﷲ تعالٰی نے ان جانوروں کو تمہارے قبضہ میں دے کر ان کو تمہارا محکوم بنا دیا ہے لہٰذا تم لوگوں پر لازم ہے کہ تم ان جانوروں پر رحم کیا کرو تمہارے اس اونٹ نے مجھ سے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لے کر اس کو تکلیف دیتے ہو۔
(ابو داود جلد۱ ص۳۵۲ مجتبائی)
-: بے دودھ کی بکری نے دودھ دیا

-: بے دودھ کی بکری نے دودھ دیا
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور مکہ میں کافروں کے سردار عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا اتفاق سے حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا میرے پاس سے گزر ہوا، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے لڑکے! اگر تمہاری بکریوں کے تھنوں میں دودھ ہو تو ہمیں بھی دودھ پلائو، میں نے عرض کیا کہ میں ان بکریوں کا مالک نہیں ہوں بلکہ ان کا چرواہا ہونے کی حیثیت سے امین ہوں، میں بھلا بغیر مالک کی اجازت کے کس طرح ان بکریوں کا دودھ کسی کو پلا سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمنے فرمایا کہ کیا تمہاری بکریوں میں کوئی بچہ بھی ہے میں نے کہا کہ ” جی ہاں ” آپ نے فرمایا اس بچے کو میرے پاس لائو۔ میں لے آیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس بچے کی ٹانگوں کو پکڑ لیا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کے تھن کو اپنا مقدس ہاتھ لگا دیا تو اس کا تھن دودھ سے بھر گیا پھر ایک گہرے پتھر میں آپ نے اس کا دودھ دوہا، پہلے خود پیا پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پلایا ۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھ کو بھی پلایا پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس بکری کے تھن میں ہاتھ مار کر فرمایا کہ اے تھن! تو سمٹ جا چنانچہ فوراً ہی اس کا تھن سمٹ کر خشک ہو گیا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ میں اس معجزہ کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ آپ پر آسمان سے جو کلام نازل ہوا ہے مجھے بھی سکھائیے ۔آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ضرور سیکھو تمہارے اندر سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ چنانچہ میں نے آپ کی زبان مبارک سے سن کر قرآن مجید کی ستر سورتیں یاد کر لیں۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہا کرتے تھے کہ میرے اسلام قبول کرنے میں اس معجزہ کو بہت بڑا دخل ہے۔
(طبقات ابن سعد ج۱ ص۱۲۲)
-: تبلیغ اسلام کرنے والا بھیڑیا

-: تبلیغ اسلام کرنے والا بھیڑیا
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بھیڑیئے نے ایک بکری کو پکڑ لیالیکن بکریوں کے چرواہے نے بھیڑئیے پر حملہ کرکے اس سے بکری کو چھین لیا۔ بھیڑیا بھاگ کر ایک ٹیلے پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اے چرواہے! اﷲ تعالٰی نے مجھ کو رزق دیا تھا مگر تو نے اس کو مجھ سے چھین لیا۔ چرواہے نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم! میں نے آج سے زیادہ کبھی کوئی حیرت انگیز اور تعجب خیز منظر نہیں دیکھا کہ ایک بھیڑیا عربی زبان میں مجھ سے کلام کرتا ہے۔ بھیڑیا کہنے لگا کہ اے چرواہے! اس سے کہیں زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ تو یہاں بکریاں چرا رہا ہے اور تو اس نبی کو چھوڑے اور ان سے منہ موڑے ہوئے بیٹھا ہے جن سے زیادہ بزرگ اور بلند مرتبہ کوئی نبی نہیں آیا۔ اس وقت جنت کے تمام دروازے کھلے ہوئے ہیں اور تمام اہل جنت اس نبی کے ساتھیوں کی شانِ جہاد کا منظر دیکھ رہے ہیں اور تیرے اور اس نبی کے درمیان بس ایک گھاٹی کا فاصلہ ہے۔ کاش! تو بھی اس نبی کی خدمت میں حاضر ہو کر اﷲ کے لشکروں کا ایک سپاہی بن جاتا۔ چرواہے نے اس گفتگو سے متاثر ہو کر کہا کہ اگر میں یہاں سے چلا گیا تو میری بکریوں کی حفاظت کون کرے گا؟ بھیڑئیے نے جواب دیا کہ تیرے لوٹنے تک میں خود تیری بکریوں کی نگہبانی کروں گا۔ چنانچہ چرواہے نے اپنی بکریوں کو بھیڑئیے کے سپرد کر دیا اور خود بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا اور واقعی بھیڑیئے کے کہنے کے مطابق اس نے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے اصحاب کو جہاد میں مصروف پایا۔ پھر چرواہے نے بھیڑئیے کے کلام کا حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمنے فرمایا کہ تم جائو تم اپنی سب بکریوں کو زندہ و سلامت پائو گے۔ چنانچہ چرواہا جب لوٹا تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بھیڑیا اس کی بکریوں کی حفاظت کر رہا ہے اور اس کی کوئی بکری بھی ضائع نہیں ہوئی ہے چرواہے نے خوش ہو کر بھیڑیئے کے لئے ایک بکری ذبح کرکے پیش کر دی اور بھیڑیا اس کو کھا کر چل دیا۔
(زرقانی جلد۵ ص۱۳۵ تا ص۱۳۶)
-: اعلان ایمان کرنے والی گوہ

-: اعلان ایمان کرنے والی گوہ
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی سلیم کا ایک اعرابی ناگہاں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی نورانی محفل کے پاس سے گزرا آپ اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔ یہ اعرابی جنگل سے ایک گوہ پکڑ کر لارہا تھا اعرابی نے آپ کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا کہ وہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ اﷲ کے نبی ہیں۔ اعرابی یہ سن کر آپ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے لات و عزیٰ کی قسم ہے کہ میں اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لائوں گا جب تک میری یہ گوہ آپ کی نبوت پر ایمان نہ لائے، یہ کہہ کر اس نے گوہ کو آپ کے سامنے ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمنے گوہ کو پکارا تو اس نے لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَاتنی بلند آواز سے کہا کہ تمام حاضرین نے سن لیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرا معبود کون ہے؟ گوہ نے جواب دیا کہ میرا معبود وہ ہے کہ اس کا عرش آسمان میں ہے اور اس کی بادشاہی زمین میں ہے اور اس کی رحمت جنت میں ہے اور اس کا عذاب جہنم میں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بلند آواز سے کہا کہ آپ رب العالمین کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں جس نے آپ کو سچا مانا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے آپ کو جھٹلایا وہ نامراد ہو گیا۔ یہ منظر دیکھ کر اعرابی اس قدر متاثر ہو ا کہ فورا ً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) میں جس وقت آپ کے پاس آیا تھا تو میری نظر میں روئے زمین پر آپ سے زیادہ ناپسند کوئی آدمی نہیں تھا لیکن اس وقت میرا یہ حال ہے کہ آپ میرے نزدیک میری اولاد بلکہ میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کے لئے حمد ہے جس نے تجھ کو ایسے دین کی ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہو گا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کو سورئہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص کی تعلیم دی ۔اعرابی قرآن کی ان دو سورتوں کو سن کر کہنے لگا کہ میں نے بڑے بڑے فصیح و بلیغ، طویل و مختصر ہر قسم کے کلاموں کو سنا ہے مگر خدا کی قسم! میں نے آج تک اس سے بڑھ کر اور اس سے بہتر کلام کبھی نہیں سنا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے فرمایا کہ یہ قبیلہ بنی سلیم کا ایک مفلس انسان ہے تم لوگ اس کی مالی امداد کر دو۔یہ سن کر بہت سے لوگوں نے اس کو بہت کچھ دیا یہاں تک کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو دس گابھن اونٹنیاں دیں۔ یہ اعرابی تمام مال و سامان کو ساتھ لے کر جب اپنے گھر کی طرف چلا تو راستے میں دیکھا کہ اس کی قوم بنی سلیم کے ایک ہزار سوار نیزہ اور تلوار لئے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ تم لوگ کہاں کے لئے اور کس ارادہ سے چلے ہو؟ سواروں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس شخص سے لڑنے کے لئے جا رہے ہیں جو یہ گمان کرتا ہے کہ وہ نبی ہے اور ہمارے دیوتائوں کو برا بھلا کہتا ہے۔ یہ سن کر اعرابی نے بلند آواز سے کلمہ پڑھا اور اپنا سارا واقعہ ان سواروں سے بیان کیا۔ ان سواروں نے جب اعرابی کی زبان سے اس کا ایمان افروز بیان سنا تو سب نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ پڑھا ۔پھر سب کے سب بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے تو حضورِ انور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اس قدر تیزی کے ساتھ ان لوگوں کے استقبال کے لئے کھڑے ہوئے کہ آپ کی چادر آپ کے جسم اطہر سے گر پڑی اور یہ لوگ کلمہ پڑھتے ہوئے اپنی اپنی سواریوں سے اتر پڑے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم )آپ ہمیں جو حکم دیں گے ہم آپ کے ہر حکم کی فرمانبرداری کریں گے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جھنڈے کے نیچے جہاد کرتے رہو۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے میں بنی سلیم کے سوا کوئی قبیلہ بھی ایسا نہیں تھا جس کے ایک ہزار آدمی بہ یک وقت مسلمان ہوئے ہوں۔ اس حدیث کو طبرانی و بیہقی و حاکم و ابن عدی جیسے بڑے بڑے محدثین نے روایت کیا ہے۔
(زرقانی ج۵ ص ۱۴۸ تا ص ۱۴۹)
-: انتباہ

-: انتباہ
اس قسم کے سینکڑوں معجزات میں سے یہ چند واقعات اس بات کی سورج سے زیادہ روشن دلیلیں ہیں کہ روئے زمین کے تمام حیوانات حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو جانتے پہچانتے اور مانتے ہیں کہ آپ نبی آخر الزماں،خاتم پیغمبراں ہیں اور یہ سب کے سب آپ کی مدح و ثنا کے خطیب اور آپ کی مقدس دعوت اسلام کے نقیب ہیں اور یہ سب آپ کے امرونہی کی حکمرانی اور آپ کے اقتدار و تصرفات کی سلطانی کو تسلیم کرتے ہوئے آپ کے ہر فرمان کو اپنے لئے واجب الایمان اور لازم العمل سمجھتے ہیں اور آپ کے اعزاز و اکرام اور آپ کی تعظیم و احترام کو اپنے لئے سرمایۂ حیات تصور کرتے ہیں ۔کاش !اس زمانے کے مسلم نما کلمہ پڑھنے پڑھانے والے انسان ان بے زبان جانوروں سے تعظیم و احترام رسول کا سبق سیکھتے اور دل و جان سے اس روشن حقیقت پر دھیان دیتے کہ ؎
اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم، جانور بھی کریں جن کی تعظیم | سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم ،پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں |
ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد، ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد | اسی در پہ شترانِ ناشاد، گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں |
(اعلیٰ حضرت قدس سرہ)